وہ افسانے جن کی بنیاد پر منٹو صاحب معتوب ٹھہرائے گئے جو دراصل انسان کے جنسیاتی اور سماجی مسائل کے آئینہ دار تھے اب وہی افسانے اُردو ادب کے بڑے اور بہترین افسانے تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان افسانوں کو مذہب اور تعصبات کی عینک اتار کر پڑھیے۔ ادبی اور فنی معیار سے جانچئے۔ یہ افسانے جنسی آسودگی و تسکین فراہم نہیں کرتے اور نہ ہی ہماری اخلاقی قدروں کے لیے تباہ کن ہیں بلکہ حقیقت کے عکاس ہیں۔ معاشرے میں چھپی غلاظت کی اندرونی تصویریں اور اس کا اعلانیہ اظہار ہیں۔ ان افسانوں کے مہ و سال ہٹا دیجئے اور ان کی تہہ میں چھپی باریکیوں کو دیکھیں تو گمان گزرے گا کہ جیسے یہ آج کے دَور کے لیے لکھی گئی ہوں۔ آج بھی منگو کوچوان قید میں ہے اور اس ملک کا داروغہ سوگندھی کی ہڈیاں بھنبھوڑتا ہے۔ سوگندھی، موذیل، سلطانہ، جانکی اور شاردہ آج بھی جیتے جاگتے کردار ہیں جوچند پیسوں کے لیے بِک جانے کو تیار ہیں۔ یہ افسانے عورت کی بے بسی اور استحصال کی رقت آمیز تصویریں ہیں۔ حرف آخر یہی کہ کتاب پڑھ کر واپس میز پر رکھ دینے سے کتاب ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ قاری کو ایک ٹھوس رائے قائم کرنی چاہیے۔ محض ” بس ٹھیک ہے“ کہہ دینا ہی کافی نہیں۔ کتاب اچھی ہے یا بری ہے، اگر اچھی ہے تو کیوں اچھی ہے؟ اور اگر بری ہے تو کیوں بری ہے ؟ اور اس کیوں کا جواب ہی اس کتاب کا حاصل ہے۔ ان افسانوں کو پڑھ کر اگر آپ کا وضو ٹوٹتا ہے تو آپ کو اپنے تئیں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ بہترین درجے کے ایک معالج کی ضرورت ہے۔ کوئی دن کی بات ہے کہ دماغ کا خلل ظاہر ہو جائے۔ (ندیم احمد ندیم)
Be the first to review “Manto Kay Mutnaza Afsanay | منٹو کے متنازع افسانے”